امیر عالم خان

دانشنامه عمومی

میر محمد امیر عالم خان منغیت ( ۳ ژانویه ۱۸۸۰ - ۲۸ آوریل ۱۹۴۴ ) ، آخرین امیر بخارا از دودمان منغیت بود که پیش از چیرگی کامل حکومت اتحاد جماهیر شوروی بر ماوراءالنهر حکمرانی داشت. دلیل عالم خوانده شدن این امیر، درس خواندنش در دانشگاه استراسبورگ و تحصیل کرده بودنش عنوان شده است[ ۱] .
با وجودی که از سال ۱۸۷۳ خانات بخارا تحت الحمایه امپراتوری روسیه قرار گرفته بود، امیر در اداره امور داخلی آزادی عمل داشت و نظام سلطنت مطلقه برقرار بود. [ نیازمند منبع]
روز ۲ سپتامبر ۱۹۲۰ میلادی نیروهای ارتش سرخ شوروی به فرماندهی ژنرال میخائیل فرونزه به بخارا حمله کردند. پس از چهار روز نبرد، ارکِ امیر ویران شد و پرچم سرخ برفراز مناره کلان به اهتزاز درآمد. امیر ناچار به دوشنبه و از آنجا به کابل رفت. با توجه به اینکه در اواخر اگست ۱۹۲۰ ارتش سرخ به سرعت در حال محاصره و هجوم به بخارا بود، سید عالم خان با خانواده و برخی از اطرافیانش به طور ناگهانی اقدام به ترک بخارا نمود. به دلایل نامعلومی، سه پسر خردسال وی حدود ۸ - ۱۰ ساله ( به گفته برخی منابع ۴ - ۶ ساله ) – سلطان مراد، شاهمراد و رحیم خان در بخارا ماندند. پس از تصرف بخارا، بلشویک ها آنها را شناسایی کردند و ابتدا می خواستند آنها را به همراه چند نفر باقیمانده از خانواده و نزدیکان امیر تیرباران کنند، اما از قتل آنها خودداری نمودند تا تبلیغات بیشتری به نفع خویش انجام دهند. و هر سه نفر را برای تحصیل در یتیم خانه ای که برای یتیمان بلشویک ها و سربازان ارتش سرخ ایجاد شده بود، به مسکو فرستاد. سید عالم خان از بلشویک ها و جامعه جهانی درخواست کرد تا فرزندان و سایر اعضای خانواده اش که در بخارا باقی مانده بودند نزد امیر به افغانستان بروند. اما بلشویک ها این درخواست را نپذیرفتند و در واقع آنها را برای اهداف سیاسی و ایدئولوژیک گروگان گرفتند.
سلطان مراد پسر ارشد سید عالم خان در اتحاد جماهیر شوروی باقی ماند، او از بدو تولد دارای معلولیت بود. او از دانشکده کار فارغ التحصیل شد و پس از فارغ التحصیلی در یک کارخانه معلولان شروع به کار کرد. بر اساس برخی گزارش ها او انگلیسی صحبت می کرد. پس از مدتی سلطان مراد توسط НКВД دستگیر و «دشمن مردم» اعلام شد. از جمله اتهامات وی، همکاری با اطلاعات بریتانیا بود. سلطان مراد پس از دستگیری دست به اعتصاب غذا زد و به احتمال زیاد از خستگی جان سپرد. سلطان مراد متاهل بود. همسرش در آن زمان در یک کارخانه صابون سازی کار می کرد و بر اساس برخی گزارش ها، با اطلاع از مرگ شوهرش، خود را در دیگچه صابون در حال جوش انداخت.
عکس امیر عالم خانعکس امیر عالم خانعکس امیر عالم خانعکس امیر عالم خانعکس امیر عالم خان
این نوشته برگرفته از سایت ویکی پدیا می باشد، اگر نادرست یا توهین آمیز است، لطفا گزارش دهید: گزارش تخلف

پیشنهاد کاربران

سید میر محمد امیر عالم خان ( ۱۹۴۴ - ۱۸۸۰ ) ، آخرین امیر بخارا پیش از چیرگی کامل حکومت اتحاد جماهیر شوروی بر منطقه ماوراءالنهر بود. با وجودی که از سال ۱۸۷۳ خانات بخارا تحت الحمایه امپراتوری روسیه قرار گرفته بود، امیر در اداره امور داخلی آزادی عمل داشت و نظام سلطنت مطلقه برقرار بود.
...
[مشاهده متن کامل]

روز ۲ سپتامبر ۱۹۲۰ میلادی نیروهای ارتش سرخ شوروی به فرماندهی ژنرال میخائیل فرونزه به بخارا حمله کردند. پس از چهار روز نبرد ارک امیر ویران شد و پرچم سرخ برفراز مناره کلیان به اهتزاز در آمد. امیر ناچار به دوشنبه و از آنجا به کابل رفت و در همانجا درگذشت. او را در گورستان شهدای صالحین به خاک سپردند.
وی در سال های پناهندگی در افغانستان علاوه بر ارتباط با باسماچیان و رهبری صوری آن ها، خاطرات خود را به نام تاریخ حزن الملل بخارا به زبان فارسی نشر کرد که با کوشش محمد اکبر عشیق کابلی در سال ۱۹۹۰ در پیشاور به چاپ رسید.
روزنامهٔ فارسی زبان بخارای شریف در زمان زمامداری وی تعطیل شد.
منبع [ویرایش]
رادیو زمانه
ویکی پدیای انگلیسی، ویرایش ۲۰ سپتامبر ۲۰۱۱
این یک نوشتار خُرد پیرامون تاریخ است. با گسترش آن به ویکی پدیا کمک کنید.
قس اردو
امیر سید میر محمد عالم خان ( پیدائش: 3 جنوری 1880ء - وفات: 28 اپریل 1944ء ) وسطی ایشیاء کی سلطنت بخارا کے آخری حکمران تھے۔ گو شہر بخارا 1873ء سے روسی سلطنت کے زیر سایہ رہا لیکن امیر کے اختیارات سلطنت بخارا کے اندرونی معاملات میں نہایت وسیع تھے۔ امیر سید محمد عالم خان نے بخارا پر 3 جنوری 1911ء سے 20 اگست 1920ء تک حکمرانی کی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ آپ چنگیز خان کے آخری وارث تھے جو کہ وسط ایشیاء میں پہلے عظیم خان کے طور پر مشہور تھے۔
13 سال کی عمر میں عالم خان کے والد امیر عبدالاحد خان نے انھیں سینٹ پیٹرزبرگ بھجوا دیا تاکہ وہ وہاں ریاست اور جدید فوجی تربیت حاصل کر سکیں۔ 1896ء میں روسی حکومت کی جانب سے غیر معمولی ولی عہد کا عہدہ کی تصدیق کے بعد محمد عالم خان بخارا لوٹ آئے۔
بخارا میں دو سال تک اپنے والد کے ساتھ ریاست کا انتظام سنبھالا، اور انھیں علاقہ نسف کا اگلے بارہ سال کے عرصے تک کے لیے گورنر مقرر کر دیا گیا۔ بعد ازاں انھیں شمالی صوبے کارمانا منتقل کر دیا دیا جہاں انھوں نے دو سال تک اپنے فرائض سرانجام دیے یہاں تک کہ 1910ء میں ان کے والد کی وفات ہو گئی۔
والد کی وفات کے بعد انھوں نے ریاست بخارا کا انتظام سنبھالا اور ان کی حکمرانی کا آغاز کئی طرح کے وعدوں سے ہوا۔ شروعات میں ہی انھوں نے سلطنت کے دربار کو تحفے وصول کرنے سے باز رکھا اور اس بارے نہایت سخت احکامات جاری کیے۔ اس کے علاوہ ریاست کے حکام پر رشوت وصول کرنے اور اپنے تئیں عوام پر ٹیکس لگانے کی پابندی عائد کر دی۔ لیکن، بعد میں امیر کی اپنی توجہ بھی رشوت ستانی، ٹیکسوں اور ریاستی تنخواہوں کی جانب برقرار نہ رہی۔ روایت پسندوں اور اصلاحات پسندوں کے مابین کھڑے ہونے والے تنازعات کا خاتمہ روایت پسندوں کی برتری پر ہو اور کئی کلیدی اصلاحات پسندوں کو ماسکو اور کازان کی جانب ہجرت کرنی پڑی۔ کہا جاتا ہے کہ اوائل دور میں عالم خان بھی جدیدیت کی جانب مائل تھے اور اصلاحات پسندوں کے حامی تھے، مگر بعد کے حالات نے ان پر واضع کر دیا کہ اس صورتحال میں اصلاحات کی صورت میں ریاست انھیں یا ان کے کسی بھی ولی عہد کوحکمران کے طور پر قبول نہیں کرے گی۔ اپنے آباؤاجداد کی مانند عالم خان بھی ایک روایتی حکمران تھے۔ انھوں نے اصلاحات کا استعمال صرف ان مقاصد کے حصول تک محدود رکھا جن سے ریاست میں توازن برقرار رہ سکتا تھا اور جدیدیت کو ریاست کے فوائد کی حد تک محدود رکھا۔[حوالہ درکار]
تاریخ کے ایک مشہور تاجک مصنف عینی صدرالدین نے امیر کے زیر اثر ریاستی زندگی بارے کئی تحاریر لکھیں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مذکورہ مصنف کو تاجک زبان بولنے اور تصانیف میں اس کے استعمال پر تشدد کا نشانہ بھی بنایاگیا اور بعد ازاں اسی مصنف نے تفصیل سے بخارار سلطنت کے امراء کے دور بارے حقائق بھی قلمبند کیے۔
عالم خان امراء بخارا میں واحد حکمران تھے جنھوں نے اپنے نام کے ساتھ خلیفہ کا استعمال کیا اور انھیں چنگیز خان کے آخری وارث کے طور پر قومی حکمران کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔
1918ء میں مارچ کے مہینے میں بخارا کے نوجوانوں کی تحریک کے رضاکاروں نے بلشویک رہنماؤں کو لکھ بھیجا کہ بخارا کا علاقہ انقلاب کے لیے تیار ہے اور لوگ آزادی کے لیے تحریک چلانے کو تیار ہیں۔ سرخ فوج بخارا شہر کے مرکزی داخلی راستوں تک آن پہنچی اور بخارا کے نوجوانوں اور عوام کے تحریری نقطہ نظر کے ساتھ امیر بخارا کو شکست تسلیم کرنے اور ریاست کا انتظام چھوڑ دینے کا پیغام بجھوایا۔ روسیوں کے مطابق امیر نے اس بلویشک وفد، جو یہ پیغام لے کر دربار میں حاضر ہوا تھا اس کو سربراہ سمیت قتل کروا دیا، اس وفد کے ساتھ ساتھ بخارا اور مضافات میں موجود بلویشک کے حامی روسیوں کو چن چن کر قتل کروا دیا۔ ان حالات کے بعد بخارا کی اکثریت عوام بلویشک فوج کی شہر پر حملے کی حامی نہ رہی اور نتیجتاَ بلویشک فوج کو سویت کے مضبوط گڑھ تاشقند کی جانب پسپائی اختیار کرنی پڑی۔
گو سرخ فوج نے پسپائی اختیار کر لی، لیکن امیر بخارا کی یہ فتح عارضی ثابت ہوئی۔ جب روس میں خانہ جنگی کا خاتمہ ہوا تو ماسکو نے وسطی ایشیاء میں مہمات پر دوبارہ اپنی افواج کو روانہ کر دیا۔ 2 ستمبر 1920ء کو بلویشک جرنیل میخائیل فرونز کی سربراہی میں سرخ فوج نے شہر بخارا پر حملہ کر دیا۔ چار دن کی مسلسل جھڑپوں کے بعد امیر بخارا کا مرکزی محل اور سلطنت بخارا کی نشانی تباہ کر دی گئی۔ مینار کالایان پر سرخ جھنڈا لہرا دیا گیا اور امیر عالم خان مجبوراً اپنے حامیوں کے ساتھ دو شنبے کی جانب پسپا ہو کر فرار ہونے پر مجبور ہوئے۔ دوشنبے جو آجکل تاجکستان میں واقع ہے، وہاں کچھ عرصہ قیام کے بعد امیر عالم خان کابل افغانستان کی جانب سفر کر گئے اور وہیں 1944ء میں وفات پائی۔
خاندان [ترمیم]
امیر ع . . .

بپرس